“Book Descriptions: گھنیرے بادل... سیلی بارشیں...برفیلے راستے... خاموش گلیاں... اندھے موڑ... اونچی حویلیاں... پُرانے دروازے... لمبی چِق ڈلی کھڑکیاں... دھوپ میں نہائے روشن دان... طویل ٹھنڈے برآمدے... اندھیری غلام گردشیں... اجنبی مکین... نازک لب... پری چہرے... ہانپتے تانگے... بھاگتی مال گاڑیاں... دُھند اور کہرے میں ڈوبے ویران ریل اسٹیشن... حیران سنّاٹے... اونگھتی روشنیاں... نادان دوست، دانا دشمن... سیاہ دل حبیب، سفید رُو رقیب...اور ایسے ہی جانے کتنے حیرت کدے، کتنے طلسم اس ایک ’’سب رنگ‘‘ کے صفحوں میں چھپے ملتے تھے۔ اور یہ سارا سحر استادِ محترم شکیل عادل زادہ صاحب کے منتروں کا طاری کردہ تھا کہ جیسے وہ بارشیں سب رنگ کے صفحوں پر نہیں میرے دل کے اندر کہیں برستی تھیں۔ وہی ویرانے اور سنّاٹے میری روح کو عطا ہوئے اور وہ برفیلے موسم میں نے اپنی جان پر جھیلے ہیں۔ میری آخری گاڑی ایسے ہی کسی دُھند میں ڈوبے ویران ریلوے اسٹیشن سے چھوٹی تھی اور میرا دل انھی حویلیوں کی کسی غلام گردش میں آج بھی کھویا ہوا ہے۔ ’’سب رنگ‘‘ کا لکھاری صرف کہانی بھلا کب لکھتا تھا، وہ تو میری آپ بیتی سناتا تھا، جو رفتہ رفتہ جگ بیتی میں ڈھل جاتی تھی۔ گویا صفحوں پر کئی خواب سے بکھرے ہوں... اور اب حسن رضا گوندل نے انھی بکھرے خوابوں کو پھر سے ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ کی صورت یکجا کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجایا ہے، جس کے لیے وہ یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ حسن رضا جیسے خواب گر اب زمانے میں کم ہی ملتے ہیں۔ ہاشم ندیم” DRIVE